اسلام میں عورت کی مستقل حیثیت ہے۔
اسلام میں عورت کی مستقل حیثیت ہے۔
محمد رضی الاسلام ندوی
اسلام میں حقوق نسواں کے معاملے میں جو سب سے بڑا اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ کہ اس میں عورتوں کو مستقل حیثیت حاصل نہیں ہے۔ وہ مردوں کا ضمیمہ ہیں۔ ہر معاملے میں انھیں مردوں کا تابع اور ماتحت بنا کر رکھا گیا ہے۔ان کی اپنی کوئی مرضی ہوتی ہے نہ اختیار۔ وہ دوسروں کی دست نگر اور ان کے اشاروں پر چلنے کے لیے مجبور ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کے زوال پذیر معاشرہ سے چاہے اسی اعتراض کی ترجمانی ہوتی ہو، بلکہ در اصل یہ اعتراض اسی کو دیکھ کر کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔
اسلام کے علاوہ بعض دیگر مذاہب اور تہذیبوں میں تو عورت کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کیا جاتا ہے، گویا اس کی تخلیق مرد سے مختلف انداز سے ہوئی ہے اور وہ کوئی دوسری مخلوق ہے۔ اسلام یہ تصور پیش کرتا ہے کہ مرد اور عورت کی تخلیق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے تمام انسانوں کو’ایک جان‘ سے پیدا کیا ہے اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:”لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔“(النساء:۱)
’ایک جان‘ سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں، جن سے نسل انسانی چلی ہے۔احادیث میں اس کی صراحت کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: ”تم سب آدم کے بیٹے ہو۔تم سب کا باپ ایک ہی ہے۔“(احمد)بائبل میں بیان کیا گیا ہے کہ آدم کی پسلی سے حوّا کو پیدا کیا گیا۔ تالمود میں اس کی اور تفصیل ہے کہ حوّا کو آدم کی دائیں جانب کی تیرہویں پسلی سے پیدا کیا گیا۔یہیں سے یہ اسرائیلی روایت کتبِ تفسیر میں بھی راہ پاگئی ہے، حالاں کہ اس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلّق نہیں۔ تخلیق ِحوّا کی تفصیلی کیفیت کا ہمیں علم نہیں ہے۔حدیث میں کہا گیا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔(بخاری، مسلم)لیکن اس میں اس کی کیفیتِ تخلیق کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس کی فطری خصوصیات کی تشبیہ بیان کی گئی ہے۔”اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا“ کا مطلب یہ ہے کہ حوّاکی تخلیق آدم کی ہی جنس سے کی۔قرآن کریم میں دوسری جگہ ہے:”اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے تمھاری جنس سے ہی بیویاں بنائیں۔“(النحل:۲۷)
مرد اور عورت میں تخلیق کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔اس کا ذکر ایک حدیث میں بہت خوب صورت انداز میں آیا ہے۔ متعدد صحابہ(ام المومنین حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلیم ؓ،حضرت انس بن مالکؓ) سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: انما النساء شقائق الرجال(ابو داؤد،ترمذی)”عورتیں اور مرد ایک جیسے ہیں۔“عربی زبان میں ’شق‘ نصف حصے کو کہتے ہیں۔ کسی چیز کو لمبائی سے چیر کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے جائیں تو ہر ٹکڑا ’شقّۃ‘کہلاتا ہے۔ اسی معنیٰ میں سگے بھائی کو ’شقیق‘ اور سگی بہن کو ’شقیقۃ‘ کہا جاتا ہے، اس لیے کہ دونوں کے ماں باپ ایک ہوتے ہیں۔ اس حدیث میں تمام عورتوں کو مردوں کے مثل قرار دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حق اور باطل، خیر اور شر،صحیح اور غلط، نیک اور بد، سب کو کھول کھول کر بیان کر دیا ہے۔اس کے رسول نے بھی اپنی تعلیمات کے ذریعے ان چیزوں کی خوب وضاحت کردی ہے۔ اب جو شخص بھی اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق زندگی گزارے گا وہ اللہ کی رضا سے بہرہ ور ہوگا اور اس کے انعامات کا مستحق ٹھہرے گا،لیکن جو شخص ان کی نافرمانی کرے گا وہ اس کے غضب کا مستحق ٹھہرے گا اور اس کی سزا جھیلے گا۔ اس معاملے میں مرد اور عورت کی کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں صراحت سے کہا گیا ہے:”بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیعِ فرمان ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں،روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔“(الاحزاب:۵۳)
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کن خوبیوں کی قدر و قیمت ہے۔یہاں دس(۰۱) اوصاف کا بیان ہے۔ یہ اصلاً دین کی بنیادی قدریں ہیں۔ ان پر عمل آوری کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔کہا گیا ہے کہ جو شخص بھی، خواہ وہ مرد ہو یا عورت،ان اوصاف کو اختیار کرے گا اور ان سے اپنی زندگی کو آراستہ کرے گااسے اللہ کی رحمت ڈھانپ لے گی اور وہ اس کی مغفرت اور اجر و انعام سے بہرہ ور ہوگا۔اگر مرد اور عورت دونوں یکساں طور پر یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کا مرتبہ یکساں ہوگا اور دونوں برابر اجر کے مستحق ہوں گے۔ان آیات میں عورتوں کا ذکر ضمناً نہیں، بلکہ مردوں کے پہلو بہ پہلو مستقلاً آیا ہے۔ اس لیے کہ وہ نصف انسانیت ہیں۔ معاشرہ کے بناؤ اور بگاڑمیں ان کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا مردوں کا ہے،بلکہ بعض پہلوؤں سے ان کا حصہ مردوں سے کچھ زیادہ ہی ہے۔
دنیا میں کوئی شخص جو عمل بھی کرے گا وہ رائیگاں نہ جائے گا۔عمل کرنے والا چاہے مرد ہو یا عورت، اللہ تعالیٰ اسے اس کا بھر پور صلہ عطا فرمائے گا۔قرآن مجید میں ایک جگہ عقل و دانش سے کام لینے والوں کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں، جو کائنات میں غور و فکر کرتے ہیں، ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے ہیں، ایمان حاصل ہونے پر شکر بجا لاتے ہیں اور آخرت کی رسوائی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ اس کے بعد کی آیت یہ ہے: ”جواب میں ان کے رب نے فرمایا: میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں،خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔“(آل عمران:۵۹۱)اس آیت میں صراحت کی گئی ہے کہ کوئی شخص چاہے مرد ہو یا عورت، جو بھی عمل کرے گا وہ ضائع نہ ہوگا۔ اس آیت کا یہ ٹکڑا بھی بہت اہم ہے: ”تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔“ یعنی تم مرد ہو یا عورت،ایک جیسے ہو، تمھارے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔تم میں سے ہر شخص اپنے اپنے عمل کے مطابق جزا پائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ دنیا میں جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ آخرت میں اس کی اچھی جزا پائے گا۔اس معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر یہ بات اجمالاً بیان کی گئی ہے، لیکن متعدد آیات میں صراحت سے مرد اور عورت کا الگ الگ تذکرہ کیا گیا ہے:”جو شخص بھی نیک عمل کرے گا،خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطے کہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔“(النحل:۷۹)”انجامِ کار نہ تمھاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو بھی برائی کرے گا اس کا پھل پائے گا اور اللہ کے مقابلے میں اپنے لیے کوئی حامی و مدد گار نہ پا سکے گا۔ اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت،بشرطے کہ ہو وہ مومن، تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی۔“ (النساء: ۳۲۔۴۲)”جو برائی کرے گا اس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اس نے برائی کی ہوگی اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطے کہ ہو وہ مومن، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے، جہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا۔“ (مومن:۰۴)
ان تینوں آیتوں میں دو باتوں کی تکرار ہے:ایک’خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘، دوسرے’بشرطے کہ ہو وہ مومن‘۔ اس سے یہ وضاحت مقصود ہے کہ دنیا میں مرد اور عورت میں سے جو بھی نیک اعمال کرے گا وہ آخرت میں اس کی جزا پائے گا۔ محض عورت ہونا اللہ تعالیٰ کے انعامات و اکرامات کے استحقاق کے معاملے میں رکاوٹ نہ بنے گا، البتہ اخروی اجر کا مستحق بننے کے لیے ایمان شرط ہے۔ جو شخص ایمان سے بہرہ ور نہ ہو، وہ چاہے مرد ہو یا عورت، وہ جنتوں کی نعمتوں سے شاد کام نہ ہو سکے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگی۔
قیامت میں ہر شخص بارگاہِ الٰہی میں ذاتی حیثیت میں پیش ہوگا۔ اس سے اس کے اپنے اعمال کا حساب ہوگا۔ اس کے رشتے داروں یا متعلقین نے دنیا میں اچھے کام کیے ہوں گا تو ان کا فائدہ اسے نہیں ملے گا اور برے کام کیے ہوں گے تو ان کا وبال اسے نہیں پہنچے گا۔ یہ ایک طے شدہ اصول ہے، جسے قرآن مجید میں بار بار دہرایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو گم راہ ہو اس کی گم راہی کا وبال اسی پر ہے۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔“(الاسراء:۵۱۔۶۱)”کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کابوجھ نہ اٹھائے گا۔ اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بار کا ایک ادنیٰ حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا، چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔“(فاطر:۸۱)
قرآن مجید میں مثالوں کے ذریعے اس اصول کو واضح کر دیا گیا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ کافر تھا۔ اس کے کفر نے حضرت ابراہیمؑ کو کچھ نقصان پہنچایا نہ ان کے،اللہ کا محبوب اور جلیل القدر پیغمبر ہونے کی وجہ سے اسے کچھ فائدہ پہنچا۔ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا ان پر ایمان نہیں لایا اور اللہ کا باغی بنا رہا۔ ایک پیغمبر کا بیٹا ہونے سے اسے کچھ فائدہ حاصل ہوا نہ اس کی سرکشی اور کفر کی وجہ سے حضرت نوحؑ کی نبوت پر کچھ فرق پڑا۔ یہ مثال قرآن مجید میں عورتوں کے سلسلے میں بھی مذکور ہے۔حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویاں ایمان سے محروم رہیں، چنانچہ عذابِ الٰہی کی مستحق ٹھہریں۔ پیغمبروں کی بیویاں ہونا ان کے کچھ کام نہ آیا۔ فرعون کی بیوی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئی تو جنت کی حق دار قرار پائی۔ ایک انتہائی ظالم و جابر اور کافربادشاہ کی بیوی ہونا تقرّبِ الٰہی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر شخص، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اللہ تعالیٰ کے رو برو اپنی ذاتی حیثیت میں پیش ہوگا اور اس سے اس کے اپنے اعمال کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
اسلام نے مردوں اور عورتوں کو برابر حیثیت دی ہے۔لیکن ان کا دائرہئ کار علیٰحدہ رکھا ہے۔دونوں کو الگ الگ کام اور الگ الگ ذمے داریاں سونپی ہیں۔ اس نے مرد کو گھر سے باہر کے کام سونپے ہیں اور معاشی تگ و دو کرکے اپنے متعلقین کی کفالت کرنے کا حکم دیا ہے اور عورت کو گھر کے اندر کی ذمے داری دی ہے اور بچوں کی پرورش و پرداخت کا کام اس کے حوالے کیا ہے۔اسی بنا پر گھر سے باہر کے بہت سے کاموں سے اسے رخصت دی گئی ہے۔خاندان کا نظام خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے کاموں کی یہ تقسیم ضروری تھی۔
٭٭٭
روزنامہ خبریں ، نئی دہلی ، 2 اکتوبر 2019
محمد رضی الاسلام ندوی
اسلام میں حقوق نسواں کے معاملے میں جو سب سے بڑا اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ کہ اس میں عورتوں کو مستقل حیثیت حاصل نہیں ہے۔ وہ مردوں کا ضمیمہ ہیں۔ ہر معاملے میں انھیں مردوں کا تابع اور ماتحت بنا کر رکھا گیا ہے۔ان کی اپنی کوئی مرضی ہوتی ہے نہ اختیار۔ وہ دوسروں کی دست نگر اور ان کے اشاروں پر چلنے کے لیے مجبور ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کے زوال پذیر معاشرہ سے چاہے اسی اعتراض کی ترجمانی ہوتی ہو، بلکہ در اصل یہ اعتراض اسی کو دیکھ کر کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔
اسلام کے علاوہ بعض دیگر مذاہب اور تہذیبوں میں تو عورت کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کیا جاتا ہے، گویا اس کی تخلیق مرد سے مختلف انداز سے ہوئی ہے اور وہ کوئی دوسری مخلوق ہے۔ اسلام یہ تصور پیش کرتا ہے کہ مرد اور عورت کی تخلیق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے تمام انسانوں کو’ایک جان‘ سے پیدا کیا ہے اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:”لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔“(النساء:۱)
’ایک جان‘ سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں، جن سے نسل انسانی چلی ہے۔احادیث میں اس کی صراحت کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: ”تم سب آدم کے بیٹے ہو۔تم سب کا باپ ایک ہی ہے۔“(احمد)بائبل میں بیان کیا گیا ہے کہ آدم کی پسلی سے حوّا کو پیدا کیا گیا۔ تالمود میں اس کی اور تفصیل ہے کہ حوّا کو آدم کی دائیں جانب کی تیرہویں پسلی سے پیدا کیا گیا۔یہیں سے یہ اسرائیلی روایت کتبِ تفسیر میں بھی راہ پاگئی ہے، حالاں کہ اس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلّق نہیں۔ تخلیق ِحوّا کی تفصیلی کیفیت کا ہمیں علم نہیں ہے۔حدیث میں کہا گیا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔(بخاری، مسلم)لیکن اس میں اس کی کیفیتِ تخلیق کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس کی فطری خصوصیات کی تشبیہ بیان کی گئی ہے۔”اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا“ کا مطلب یہ ہے کہ حوّاکی تخلیق آدم کی ہی جنس سے کی۔قرآن کریم میں دوسری جگہ ہے:”اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے تمھاری جنس سے ہی بیویاں بنائیں۔“(النحل:۲۷)
مرد اور عورت میں تخلیق کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔اس کا ذکر ایک حدیث میں بہت خوب صورت انداز میں آیا ہے۔ متعدد صحابہ(ام المومنین حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلیم ؓ،حضرت انس بن مالکؓ) سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: انما النساء شقائق الرجال(ابو داؤد،ترمذی)”عورتیں اور مرد ایک جیسے ہیں۔“عربی زبان میں ’شق‘ نصف حصے کو کہتے ہیں۔ کسی چیز کو لمبائی سے چیر کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے جائیں تو ہر ٹکڑا ’شقّۃ‘کہلاتا ہے۔ اسی معنیٰ میں سگے بھائی کو ’شقیق‘ اور سگی بہن کو ’شقیقۃ‘ کہا جاتا ہے، اس لیے کہ دونوں کے ماں باپ ایک ہوتے ہیں۔ اس حدیث میں تمام عورتوں کو مردوں کے مثل قرار دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حق اور باطل، خیر اور شر،صحیح اور غلط، نیک اور بد، سب کو کھول کھول کر بیان کر دیا ہے۔اس کے رسول نے بھی اپنی تعلیمات کے ذریعے ان چیزوں کی خوب وضاحت کردی ہے۔ اب جو شخص بھی اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق زندگی گزارے گا وہ اللہ کی رضا سے بہرہ ور ہوگا اور اس کے انعامات کا مستحق ٹھہرے گا،لیکن جو شخص ان کی نافرمانی کرے گا وہ اس کے غضب کا مستحق ٹھہرے گا اور اس کی سزا جھیلے گا۔ اس معاملے میں مرد اور عورت کی کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں صراحت سے کہا گیا ہے:”بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیعِ فرمان ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں،روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔“(الاحزاب:۵۳)
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کن خوبیوں کی قدر و قیمت ہے۔یہاں دس(۰۱) اوصاف کا بیان ہے۔ یہ اصلاً دین کی بنیادی قدریں ہیں۔ ان پر عمل آوری کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔کہا گیا ہے کہ جو شخص بھی، خواہ وہ مرد ہو یا عورت،ان اوصاف کو اختیار کرے گا اور ان سے اپنی زندگی کو آراستہ کرے گااسے اللہ کی رحمت ڈھانپ لے گی اور وہ اس کی مغفرت اور اجر و انعام سے بہرہ ور ہوگا۔اگر مرد اور عورت دونوں یکساں طور پر یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کا مرتبہ یکساں ہوگا اور دونوں برابر اجر کے مستحق ہوں گے۔ان آیات میں عورتوں کا ذکر ضمناً نہیں، بلکہ مردوں کے پہلو بہ پہلو مستقلاً آیا ہے۔ اس لیے کہ وہ نصف انسانیت ہیں۔ معاشرہ کے بناؤ اور بگاڑمیں ان کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا مردوں کا ہے،بلکہ بعض پہلوؤں سے ان کا حصہ مردوں سے کچھ زیادہ ہی ہے۔
دنیا میں کوئی شخص جو عمل بھی کرے گا وہ رائیگاں نہ جائے گا۔عمل کرنے والا چاہے مرد ہو یا عورت، اللہ تعالیٰ اسے اس کا بھر پور صلہ عطا فرمائے گا۔قرآن مجید میں ایک جگہ عقل و دانش سے کام لینے والوں کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں، جو کائنات میں غور و فکر کرتے ہیں، ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے ہیں، ایمان حاصل ہونے پر شکر بجا لاتے ہیں اور آخرت کی رسوائی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ اس کے بعد کی آیت یہ ہے: ”جواب میں ان کے رب نے فرمایا: میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں،خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔“(آل عمران:۵۹۱)اس آیت میں صراحت کی گئی ہے کہ کوئی شخص چاہے مرد ہو یا عورت، جو بھی عمل کرے گا وہ ضائع نہ ہوگا۔ اس آیت کا یہ ٹکڑا بھی بہت اہم ہے: ”تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔“ یعنی تم مرد ہو یا عورت،ایک جیسے ہو، تمھارے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔تم میں سے ہر شخص اپنے اپنے عمل کے مطابق جزا پائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ دنیا میں جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ آخرت میں اس کی اچھی جزا پائے گا۔اس معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر یہ بات اجمالاً بیان کی گئی ہے، لیکن متعدد آیات میں صراحت سے مرد اور عورت کا الگ الگ تذکرہ کیا گیا ہے:”جو شخص بھی نیک عمل کرے گا،خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطے کہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔“(النحل:۷۹)”انجامِ کار نہ تمھاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو بھی برائی کرے گا اس کا پھل پائے گا اور اللہ کے مقابلے میں اپنے لیے کوئی حامی و مدد گار نہ پا سکے گا۔ اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت،بشرطے کہ ہو وہ مومن، تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی۔“ (النساء: ۳۲۔۴۲)”جو برائی کرے گا اس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اس نے برائی کی ہوگی اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطے کہ ہو وہ مومن، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے، جہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا۔“ (مومن:۰۴)
ان تینوں آیتوں میں دو باتوں کی تکرار ہے:ایک’خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘، دوسرے’بشرطے کہ ہو وہ مومن‘۔ اس سے یہ وضاحت مقصود ہے کہ دنیا میں مرد اور عورت میں سے جو بھی نیک اعمال کرے گا وہ آخرت میں اس کی جزا پائے گا۔ محض عورت ہونا اللہ تعالیٰ کے انعامات و اکرامات کے استحقاق کے معاملے میں رکاوٹ نہ بنے گا، البتہ اخروی اجر کا مستحق بننے کے لیے ایمان شرط ہے۔ جو شخص ایمان سے بہرہ ور نہ ہو، وہ چاہے مرد ہو یا عورت، وہ جنتوں کی نعمتوں سے شاد کام نہ ہو سکے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگی۔
قیامت میں ہر شخص بارگاہِ الٰہی میں ذاتی حیثیت میں پیش ہوگا۔ اس سے اس کے اپنے اعمال کا حساب ہوگا۔ اس کے رشتے داروں یا متعلقین نے دنیا میں اچھے کام کیے ہوں گا تو ان کا فائدہ اسے نہیں ملے گا اور برے کام کیے ہوں گے تو ان کا وبال اسے نہیں پہنچے گا۔ یہ ایک طے شدہ اصول ہے، جسے قرآن مجید میں بار بار دہرایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو گم راہ ہو اس کی گم راہی کا وبال اسی پر ہے۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔“(الاسراء:۵۱۔۶۱)”کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کابوجھ نہ اٹھائے گا۔ اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بار کا ایک ادنیٰ حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا، چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔“(فاطر:۸۱)
قرآن مجید میں مثالوں کے ذریعے اس اصول کو واضح کر دیا گیا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ کافر تھا۔ اس کے کفر نے حضرت ابراہیمؑ کو کچھ نقصان پہنچایا نہ ان کے،اللہ کا محبوب اور جلیل القدر پیغمبر ہونے کی وجہ سے اسے کچھ فائدہ پہنچا۔ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا ان پر ایمان نہیں لایا اور اللہ کا باغی بنا رہا۔ ایک پیغمبر کا بیٹا ہونے سے اسے کچھ فائدہ حاصل ہوا نہ اس کی سرکشی اور کفر کی وجہ سے حضرت نوحؑ کی نبوت پر کچھ فرق پڑا۔ یہ مثال قرآن مجید میں عورتوں کے سلسلے میں بھی مذکور ہے۔حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویاں ایمان سے محروم رہیں، چنانچہ عذابِ الٰہی کی مستحق ٹھہریں۔ پیغمبروں کی بیویاں ہونا ان کے کچھ کام نہ آیا۔ فرعون کی بیوی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئی تو جنت کی حق دار قرار پائی۔ ایک انتہائی ظالم و جابر اور کافربادشاہ کی بیوی ہونا تقرّبِ الٰہی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر شخص، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اللہ تعالیٰ کے رو برو اپنی ذاتی حیثیت میں پیش ہوگا اور اس سے اس کے اپنے اعمال کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
اسلام نے مردوں اور عورتوں کو برابر حیثیت دی ہے۔لیکن ان کا دائرہئ کار علیٰحدہ رکھا ہے۔دونوں کو الگ الگ کام اور الگ الگ ذمے داریاں سونپی ہیں۔ اس نے مرد کو گھر سے باہر کے کام سونپے ہیں اور معاشی تگ و دو کرکے اپنے متعلقین کی کفالت کرنے کا حکم دیا ہے اور عورت کو گھر کے اندر کی ذمے داری دی ہے اور بچوں کی پرورش و پرداخت کا کام اس کے حوالے کیا ہے۔اسی بنا پر گھر سے باہر کے بہت سے کاموں سے اسے رخصت دی گئی ہے۔خاندان کا نظام خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے کاموں کی یہ تقسیم ضروری تھی۔
٭٭٭
روزنامہ خبریں ، نئی دہلی ، 2 اکتوبر 2019
Comments
Post a Comment