اسلام میں عورت کی مستقل حیثیت ہے۔
اسلام میں عورت کی مستقل حیثیت ہے۔ محمد رضی الاسلام ندوی اسلام میں حقوق نسواں کے معاملے میں جو سب سے بڑا اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ کہ اس میں عورتوں کو مستقل حیثیت حاصل نہیں ہے۔ وہ مردوں کا ضمیمہ ہیں۔ ہر معاملے میں انھیں مردوں کا تابع اور ماتحت بنا کر رکھا گیا ہے۔ان کی اپنی کوئی مرضی ہوتی ہے نہ اختیار۔ وہ دوسروں کی دست نگر اور ان کے اشاروں پر چلنے کے لیے مجبور ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کے زوال پذیر معاشرہ سے چاہے اسی اعتراض کی ترجمانی ہوتی ہو، بلکہ در اصل یہ اعتراض اسی کو دیکھ کر کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ اسلام کے علاوہ بعض دیگر مذاہب اور تہذیبوں میں تو عورت کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کیا جاتا ہے، گویا اس کی تخلیق مرد سے مختلف انداز سے ہوئی ہے اور وہ کوئی دوسری مخلوق ہے۔ اسلام یہ تصور پیش کرتا ہے کہ مرد اور عورت کی تخلیق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے تمام انسانوں کو’ایک جان‘ سے پیدا کیا ہے اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:”لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا