جنگ آزادی میں مدارسِ اسلامیہ کے علماء کرام کی قربانیاں از: مولانا شوکت علی قاسمی بستوی استاذ تفسیر و ادب عربی دارالعلوم دیوبند، وناظم عمومی کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ
جنگ آزادی میں مدارسِ اسلامیہ کے
علماء کرام کی قربانیاں
از: مولانا شوکت علی قاسمی بستوی
استاذ تفسیر و ادب عربی دارالعلوم دیوبند، وناظم عمومی کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ
مدارس اسلامیہ ہند نے جہالت و ناخواندگی کے قلع قمع، علوم و فنون کی تعلیم و اشاعت اور ملت اسلامیہ کی دینی وملی قیات و رہنمائی کا فریضہ ہی انجام نہیں دیا ہے؛ بلکہ ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں بھی ان مدرسوں کی خدمات بڑی روشن ہیں، بالخصوص برطانوی سامراج کے ظلم و استبداد اور غلامی و محکومی سے نجات دلانے اور ابنائے وطن کو عروسِ حریت سے ہم کنار کرانے میں، مدارس اسلامیہ اور ان کے قائدین کی قربانیاں آب زر سے لکھی جانے کے قابل ہیں، وہ مدارس اسلامیہ کے جان باز علماء کرام ہی تو تھے جنھوں نے ملک میں آزادی کا صور اس وقت پھونکا جب عام طور پر دیگر لوگ خواب غفلت میں مست، آزادی کی ضرورت و اہمیت سے نابلد اور احساسِ غلامی سے بھی عاری تھے۔
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا
مگر یہ بھی بڑا قومی المیہ ہے کہ ۱۵/ اگست کے تاریخ ساز اور یادگار قومی دن کے مبارک و مسعود موقع پر جب مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے، ان کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، تو ان علماء کرام اور مجاہدین حریت کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے جنھوں نے ملک کی آزادی کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، مالٹا اور کالا پانی میں ہر طرح کی اذیتیں جھیلیں اور جان نثاری و سرفروشی کی ایسی مثال قائم کیں جن کی نظیر نہیں ملتی اور ملک کا چپہ چپہ ان کی قربانیوں کا چشم دید گواہ ہے۔
پتہ پتہ بو ٹا بو ٹا حا ل ہما ر ا جا نے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
ملک کا ایک طبقہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ دینی و اسلامی مدارس، قومی دھارے سے بالکل الگ تھلگ، ملکی و قومی مفادات سے بے پروا ہوکرصرف دینی تعلیم کی اشاعت میں لگے رہتے ہیں، مدراس کے فضلا گرد و پیش کے حالات سے بے خبر اور ملکی و قومی خدمت کے شعور واحساس سے بھی عاری ہوتے ہیں۔ لیکن مدارس اسلامیہ کا شاندار ماضی، اس مفروضہ کو قطعاً غلط اور بے بنیاد قرار دیتا ہے، اور تاریخ ہند کی پیشانی پر ثبت، مدارس اسلامیہ کی ملکی و قومی خدمات اور کارناموں کے نقوش پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ مدارس اسلامیہ کے علماء کرام و فضلاء عظام نے ہمیشہ ملکی مفادات کی پاسبانی اور اپنے خون پسینہ سے چمنستان ہند کی آب یاری کی ہے اور ملک کی آزادی کی تاریخ ان قربانیوں سے لالہ زار ہے، چنانچہ ان ہزاروں علماء کرام اور مجاہدین آزادی کی ایک لمبی فہرست ہے جنھوں نے آزادی کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں اور قائدانہ رول ادا کیا ، خصوصاً حضرت مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی، مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی، مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی، مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی، مولانا سید احمد شہید رائے بریلوی، مولانا سید اسماعیل شہید دہلوی، مولانا شاہ اسحاق دہلوی، مولانا عبدالحئی بڈھانوی، مولانا ولایت علی عظیم آبادی، مولانا جعفر تھانیسری، مولانا عبداللہ صادق پوری، مولانا نذیر حسین دہلوی، مفتی صدرالدین آزردہ، مفتی عنایت احمد کاکوری،مولانا فرید الدین شہید دہلوی، سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، امام حریت مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، قاضی عنایت احمد تھانوی، قاضی عبدالرحیم تھانوی، حافظ ضامن شہید، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا احمد اللہ مدراسی، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا رضی اللہ بدایونی، امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد، امام انقلاب شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری،مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، مولانا شوکت علی رام پوری، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا ڈاکٹر برکت اللہ بھوپالی، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا کفایت اللہ دہلوی، مولانا سیف الرحمن کابلی، مولانا وحید احمد فیض آبادی، مولانا محمد میاں انصاری، مولانا عزیر گل پشاوری، مولانا حکیم نصرت حسین فتح پوری، مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا ابوالمحاسن سجاد پٹنوی، مولانا احمد سعید دہلوی، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا محمد میاں دہلوی، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا عبدالحلیم صدیقی، مولانا نورالدین بہاری وغیرہ آسمان حریت کے وہ تابندہ ستارے ہیں جنھوں نے محکومی کی شب دیجور کو تار تار کیا اور ملک کے چپے چپے کو انوار حریت کی ضوفشانی سے معمور کردیا۔
یہ ہند میں سرمایہٴ ملت کے نگہباں
اللہ نے بر وقت کیا ان کو خبردار
مذکورہ مجاہدین وعلماء کرام سب مدارس اسلامیہ ہی کے فضلا و فیض یافتہ تھے ایک دو حضرات ایسے ہیں جو باضابطہ کسی مدرسے کے فارغ نہ تھے لیکن علماء کرام کے باضابطہ صحبت یافتہ ضرور تھے، ان میں وہ علماء کرام بھی ہیں جنھوں نے جدوجہد آزادی کا آغاز کیا اور حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب اور پھر سید احمد شہید کی زیر قیادت کام کرتے رہے اور ان کے بعد بھی جدوجہد جاری رکھی، وہ علماء کرام ہی ہیں جنھوں نے ۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی میں بنفس نفیس شرکت فرمائی پھر وہ علماء کرام ہیں جو زعیم حریت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اور امام الہند مولانا ابوالکلام کی زیر قیادت جنگ آزادی میں شریک رہے۔ ان حضرات کی قربانیوں کی ایک جھلک پیش کرنے کے لئے ہمیں سلسلہ وار واقعات پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔
سولہویں صدی عیسوی کے ختم ہوتے ہوتے انگلستانی سوداگر ہندوستان پہنچ چکے تھے ۱۶۰۱/ میں ملکہ ایلزبیتھ کی اجازت سے ایک سو تاجروں نے تیس ہزار پونڈ کی خطیر رقم لگاکر ایک تجارتی ادارہ ایسٹ انڈیا کمپنی (East India Company) کے نام سے قائم کیا، مغربی بنگال کو کمپنی نے اپنا مرکز بنایا اور ڈیڑھ سو سال تک اپنی تمام تر توجہ صرف تجارت پر مرکوز رکھی لیکن جب حضرت اورنگ زیب عالمگیر، اور معظم شاہ کے بعد مغلیہ حکومت کی بنیادیں کمزور پڑگئیں اور ملک میں انارکی اور طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا مکھوٹا اتار پھینکا اور نظام حکومت میں مداخلت شروع کردی۔ ۱۷۵۷/ میں پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ کے خلاف انگریزوں کی فوجیں کھلم کھلا میدان میں آگئیں اور ننگ ملت ننگ دین اور ننگ وطن میر جعفر کی غداری کے سبب نواب سراج الدولہ کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا اور پورے بنگال پر ا نگریز قابض ہوگئے، پھر ۱۷۶۴/ میں انگریزوں کے خلاف نواب شجاع الدولہ کو بکسر میں شکست ہوئی اور بہار و بنگال انگریز کی دیوانی میں چلے گئے۔ ۱۷۹۲/ میں بطل حریت سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد انگریزوں نے میسور پر قبضہ کرلیا۔ ۱۸۴۹ میں پنجاب بھی کمپنی کے قبضہ میں آگیا اسی طرح سندھ آسام، برما، اودھ، روہیل کھنڈ، جنوبی دوآبہ، علی گڈھ، شمالی دوآبہ، مدراس وپانڈی چری وغیرہ انگریزوں کے زیر تسلط آگئے اور پھر وہ وقت بھی آپہنچا جب دہلی پر بھی کمپنی کی حکومت قائم ہوگئی اور مغل بادشاہ کا صرف نام رہ گیا، ان علاقوں پر انگریزوں نے فتح حاصل کرنے کے لیے کیا کیا تدبیریں کیں مسز اینی بیسنٹ کی زبانی سنئے:
”کمپنی والوں کی جنگ سپاہیوں کی جنگ نہ تھی بلکہ تاجروں کی جنگ تھی، ہندوستان کو انگلستان نے اپنی تلوار سے فتح نہ کیا بلکہ خود ہندوستانیوں کی تلوار سے اور رشوت و سازش، نفاق، اور حد درجہ کی دورخی پالیسی پہ عمل کرکے ایک جماعت کو دوسری جماعت سے لڑاکر اس نے یہ ملک حاصل کیا۔ (ہندوستان کی کوشش آزادی کے لئے ص:۵۶)
ملک میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے پھیلتے ہوئے جال اور بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو سب سے پہلے اگر کسی نے محسوس کیا تو وہ حضرت مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی کی عبقری شخصیت تھی آپ نے پوری دوراندیشی کے ساتھ اصلاح کے اصول بیان کئے طریقہٴ کار کی نشاندہی فرمائی اور باشندگان وطن کے بنیادی حقوق پامال کرنے والے نظام حکومت کو درہم برہم کردینے کی تلقین کی اور اس کے لیے طاقت کے استعمال پر بھی زور دیا، ان کے متعین کردہ نقشہ راہ کے مطابق ان کے فرزنداکبر حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد کا منظم آغاز کیا، انگریزوں کے خلاف تاریخ ساز فتویٰ صادر فرمایا اور ملک کے دارالحرب ہونے کا اعلان کیا جو انگریز کے خلاف اعلان جہاد کے مترادف تھا یہ فتویٰ جنگل کی آگ کی طرح ملک کے کونے کونے میں پہنچ گیا، ۱۸۱۸/ میں عوام کی ذہن سازی کے لئے مولانا سید احمد شہید، مولانا اسماعیل دہلوی، اور مولانا عبدالحئی بڈھانوی کی مشاورت میں ایک جماعت تشکیل دی گئی جس نے ملک کے اطراف میں پہنچ کر دینی اور سیاسی بیداری پیدا کی، پھر انگریزوں سے جہاد کے لئے ۱۸۲۰/ میں مولانا سید احمد شہید رائے بریلوی کی قیادت میں مجاہدین کو روانہ کیاگیا، انھوں نے جنگی خصوصیات کی بنا پر جہاد کا مرکز صوبہ سرحد کو بنایا، مقصد انگریزوں سے جہاد تھا لیکن پنجاب کے راجہ انگریزوں کے وفادار تھے، اس جہاد کے مخالف تھے اور اس کو ناکام کرنے کی تدبیریں کررہے تھے اس لئے پہلے حضرت سید احمد شہید نے ان کو پیغام بھیجا کہ ”تم ہمارا ساتھ دو، دشمنوں (انگریزوں) کے خلاف جنگ کرکے ہم ملک تمہارے حوالے کردیں گے، ہم ملک ومال کے طالب نہیں“ لیکن راجہ نے انگریز کی وفاداری ترک نہ کی تو اس سے بھی جہاد کیاگیا ۱۸۳۱/ میں بالاکوٹ کے میدان میں حضرت مولانا رائے بریلوی نے جام شہادت نوش کیا، مگر ان کے متوسلین نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ملک کے مختلف اطراف میں انگریز کے خلاف گوریلا جنگ جاری رکھی۔ ۱۸۵۷/ کی جنگ کے لیے سید صاحب کے متوسلین ومجاہدین نے فضا ہموار کرنے اور افراد تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی میں علماء کرام نے باقاعدہ جنگ میں حصہ لیا، یہ علماء کرام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور حضرت سید احمد شہید رحمہم اللہ کی سلسلة الذہب (طلائی زنجیر) کی سنہری کڑی تھے۔ اس جنگ کے لیے علماء کرام نے عوام کو جہاد کی ترغیب دلانے کے لئے ملک کے طول و عرض میں وعظ و تقریر کا بازار گرم کردیا اور جہاد پر ابھارنے کا فریضہ انجام دیا نیز ایک متفقہ فتویٰ جاری کرکے انگریزوں سے جہاد کو فرض عین قرار دیا۔ اس فتویٰ نے جلتے پر تیل کا کام کیا اور پورے ملک میں آزادی کی آگ بھڑک اٹھی، اکابر علماء دیوبند نے شاملی کے میدان میں جہاد میں خود شرکت کی۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور حافظ ضامن شہید نے حضرت سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی، پھر تیاری شروع کردی گئی، حضرت حاجی صاحب کو امام مقرر کیاگیا مولانا منیر نانوتوی کو فوج کے دائیں بازو کا اور حافظ ضامن تھانوی کو بائیں بازو کا افسر مقرر کیاگیا مجاہدین نے پہلا حملہ شیرعلی کی سڑک پر انگریزی فوج پر کیا اور مال و اسباب لوٹ لیا، دوسرا حملہ ۱۴/ ستمبر ۱۸۵۷/ کو شاملی پر کیا، اور فتح حاصل کی، جب خبر آئی کہ توب خانہ سہارنپور سے شاملی کو بھیجا گیا ہے تو حضرت حاجی صاحب نے مولانا گنگوہی کو چالیس پچاس مجاہدین کے ساتھ مقرر کیا، سڑک باغ کے کنارے سے گزرتی تھی، مجاہدین اس باغ میں چھپے تھے جب پلٹن وہاں سے گذری تو مجاہدین نے ایک ساتھ فائر کردیا پلٹن گھبراگئی اور توپ خانہ چھوڑ کر بھاگ گئی اسی معرکہ میں حافظ ضامن صاحب تھانوی شہید ہوئے سید حسن عسکری صاحب کو سہارنپور لاکر انگریزوں نے گولی ماردی مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی مظفرنگر جیل میں ڈال دئیے گئے اور مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کے لئے انڈرگراؤنڈ چلے گئے۔
۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی مختلف وجوہ و اسباب کی بنا پر ناکام رہی اور آزادی کے متوالوں پر ہول ناک مظالم کے پہاڑ توڑڈالے گئے۔ ان میں مسلمان اور بطور خاص علماء، انگریزوں کی مشق ستم کا نشانہ بنے، اس لئے کہ انھوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور علماء کرام نے ان کے خلاف فتویٰ دے کر جہاد کا اعلان عام کردیا تھا، چنانچہ ۱۸۵۷/ سے چودہ برس پہلے ہی گورنر جنرل ہند نے یہ کہہ دیا تھا کہ مسلمان بنیادی طور پر ہمارے مخالف ہیں اس جنگ میں دو لاکھ مسلمانوں کو شہید کیاگیا جن میں ساڑھے اکیاون ہزار علماء کرام تھے، انگریز علماء کے اتنے دشمن تھے کہ ڈاڑھی اور لمبے کرتے والوں کو دیکھتے ہی پھانسیاں دے دیتے تھے، ایڈورڈ ٹامسن نے شہادت دی ہے کہ صرف دہلی میں پانچ سو علماء کو پھانسی دی گئی (ریشمی رومال ص:۴۵) پوری دہلی کو مقتل میں تبدیل کردیاگیا تھا مرزا غالب کی زبان میں۔
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر نمونہ بنا ہے زند ا ں کا
شہر دلی کا ذَ رّہ ذ رّہٴ خا ک
تشنہٴ خوں ہے ہر مسلمان کا
دہلی، کلکتہ، لاہور، بمبئی، پٹنہ، انبالہ، الہ آباد، لکھنوٴ، سہارنپور، شاملی اور ملک کے چپے چپے میں مسلمان اور دیگر مظلوم ہندوستانیوں کی لاشیں نظر آرہی تھیں علماء کرام کو زندہ خنزیر کی کھالوں میں سی دیا جاتا پھر نذر آتش کردیا جاتا تھا کبھی ان کے بدن پر خنزیر کی چربی مل دی جاتی پھر زندہ جلادیا جاتا تھا۔ (دیکھئے ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماء)
اس جنگ میں ناکامی کی بنیادی وجہ افراد ووسائل کی قلت اور تنظیم کی کمی تھی اس لئے اکابر دیوبند نے غور و خوض کے بعد، دیوبند میں ۱۸۶۶/ میں دار العلوم دیوبند قائم کیا، اس کا مقصد جہاں تعلیم وتعلم تھا وہیں ملک کی آزادی کے لئے افراد و رجال کار کی تیاری بھی تھی جو قوم اور ملک کی قیادت کرسکیں کاروان آزادی کو کامیابی کے ساتھ منزل تک پہنچاسکیں چنانچہ دارالعلوم کے پہلے طالب علم جو فراغت کے بعد دارالعلوم میں استاذ اور صدرالمدرسین کے منصب جلیل پر فائز ہوئے انھوں نے ایک موقع پر فرمایا:
”حضرت الاستاذ (حضرت نانوتوی) نے اس مدرسے کو کیا درس تدریس، تعلیم وتعلّم کیلئے قائم کیاتھا؟ مدرسہ میرے سامنے قائم ہوا جہاں تک میں جانتا ہوں ۱۸۵۷/ کے ہنگامہ کی ناکامی کے بعد یہ ارادہ قائم کیاگیا تاکہ کوئی ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے زیر اثر لوگوں کو تیار کیا جائے تاکہ ۱۸۵۷/ کی تلافی کی جاسکے“ (رسالہ دارالعلوم شمارہ جمادی الثانی ۱۳۷۲ھ)
معلوم ہوا کہ ملک کی خدمت اور اس کی آزادی سے ہم کنار کرنے کا جذبہ دارالعلوم دیوبند کے قیام کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے، اسی طرح جو مدارس دارالعلوم کے نہج پر بعد میں قائم کئے گئے ان کے قیام کے مقاصد میں بھی ایک اہم مقصد یہ رہا ہے کہ ایسے رجال کار اور افراد تیار کئے جائیں جو ملک کی تعمیر و ترقی میں موٴثر رول ادا کرسکیں، پھر ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے وسیع پیمانے پر جدوجہد کیلئے اکابر دارالعلوم دیوبند نے جمعیة علماء ہند قائم کی جو دارالعلوم کا سیاسی بازو تھی، اکابر جمعیة نے عوام میں بیداری کی لہر پیدا کرنے اور آزادی کے لیے فضا سازگار بنانے میں اہم رول ادا کیا جمعیة نے کانگریس سے بھی پہلے ”کوئٹ انڈیا“ ”ہندوستان چھوڑو“ کا مطالبہ اپنی تجویز کے ذریعہ کیا، مولانا ابوالکلام آزاد نے جمعیة اور کانگریس کے پلیٹ فارم سے، اور مولانا محمد علی جوہر اور مولانا حسرت موہانی وغیرہ نے آزادی کے لئے جو خدمات انجام دیں وہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
یہاں امام انقلاب حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی نے اپنے رفقاء کار کے ساتھ مل کر جو آزادی کی تحریک برپا کی تھی، اس پر روشنی ڈالنا مناسب ہوگا یہ تحریک ریشمی رومال کے نام سے مشہور ہوئی ۱۸۵۷/ کی جنگ کی ناکامی کے بعد ملک کی آزادی کے لئے یہ ہمہ گیر تحریک شروع کی گئی تھی، پہلے حضرت شیخ الہند نے فضلاء دیوبند کی ایک تنظیم ثمرة التربیہ قائم کی پھر جمعیة الانصار قائم کی اور اس کے تحت فضلاء کو مربوط کیا اور ان کو منظم اور ٹرینڈ کیا گیا، فضلاء میں کابل اور سرحد کے فضلاء بھی تھے، حضرت سید احمد شہید کی تحریک کے اثرات وہاں باقی تھے حضرت شیخ الہند نے اسی علاقہ کو اپنی تحریک کا مرکز بنایا، پروگرام یہ تھا کہ اس علاقے کو جوش جہاد سے معمور کردیا جائے اور حکومت افغانستان کو آمادہ کیا جائے کہ وہ مجاہدین آزادی ہند کا تعاون کرے اور ٹرکی حکومت سے رابطہ کرکے اسے تیار کیا جائے کہ وہ ہندوستان میں برطانوی حکومت پر حملہ کردے۔ اور اندرون ملک بغاوت و انقلاب کی آگ بھڑکادی جائے اور اندرونی اور بیرونی یورش سے مجبور ہوکر برطانیہ ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوجائے۔ اس کے لئے حضرت شیخ الہند نے اندرون ملک دہلی، لاہور، پانی پت، دین پور، امروت، کراچی، اتمان زئی، ڈھاکہ وغیرہ کو مرکز بنایا، مشن کی کامیابی کے لئے برما، چین، فرانس اور امریکہ وفود روانہ کئے اور ان کی حمایت حاصل کی۔ مولانا عبید اللہ سندھی کو آپ نے کابل میں رہ کر خدمات انجام دینے کا حکم دیا اور خود حجاز مقدس تشریف لے گئے تاکہ وہاں خلافت عثمانیہ کے ذمہ داروں سے مل کر ذہن سازی کی جائے اور ترکی کو برطانوی حکومت کے خلاف حملہ کیلئے راغب کیا جائے چنانچہ حضرت نے گورنر غالب پاشا سے ملاقات کی اس نے مکمل تعاون کیا اور وزیر جنگ ترکی، انور پاشا سے بھی مدینہ منورہ میں حضرت شیخ الہند کی ملاقات ہوئی اور وزیر جنگ ترکی نے اپنے ہرتعاون کا یقین دلایا۔ اس تحریک میں مولانا سندھی نے ایک ریشمی رومال پر ایک خفیہ خط بنوایا تھا اس لئے اس کا نام ریشمی رومال تحریک پڑگیا۔ اس تحریک کے ارکان و معاونین میں حضرت شیخ الہند کے علاوہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، موانا عبید اللہ سندھی، حاجی ترنگ زئی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالرحیم رائے پوری، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، مولانا صادق کراچوی، خان عبدالغفار خاں سرحدی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا حسرت موہانی، موانا محمد علی جوہر، مولانا عزیر گل، مولانا برکت اللہ بھوپالی، اور غیرمسلم ارکان تحریک میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ، ڈاکٹر متھرا سنگھ، اے پی پی اچاریہ وغیرہ شامل تھے ۔ تحریک کا راز فاش ہوجانے اور حضرت شیخ الہند کے گرفتار ہوجانے کے باعث تحریک کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہوتے رہ گئی لیکن تحریک سے ہندومسلم اتحاد کے ساتھ آزادی کی لڑائی لڑنے کی مضبوط بنیاد قائم ہوگئی۔ حضرت شیخ الہند کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے گاندھی جی کا خلافت کمیٹی اور جمعیة علماء ہند کے پلیٹ فارم اور فنڈ سے پورے ملک کا دورہ کرایا اور ایک ساتھ مل کر جنگ آزادی میں حصہ لینے کا فیصلہ کیاگیا۔
اس موقع پر شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کو سلام عقیدت پیش کرنا بھی ضرری ہے، انھوں نے ساری زندگی حضرت شیخ الہند کے نقش قدم پر چل کر ملک کی آزادی اور تعمیر و ترقی میں صرف کردی اور جمعیة اور کانگریس کے پلیٹ فارم سے جو کارنامے انجام دئیے وہ آب زر سے لکھے جائیں گے، ۱۹۲۰/ میں جمعیة علماء ہند کے اجلاس عام میں یہ طے کیاگیا کہ گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ موالات و نصرت کے تمام تعلقات اور معاملات حرام ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ (۱) حظابات اور اعزازی عہدے چھوڑدئیے جائیں (۲) کونسلوں کی ممبری ترک کردی جائے (۳) دشمنان دین انگریز کو تجارتی نفع نہ پہنچایا جائے (۴) اسکولوں اور کالجوں میں سرکاری امداد قبول نہ کی جائے (۵) دشمنان دین کی فوج میں ملازمت کو حرام سمجھا جائے (۶) سرکاری عدالتوں میں مقدمات نہ لے جائے جائیں ۱۹۲۱/ جولائی میں کراچی میں تحریک خلافت کے اجلاس میں بھی حضرت مدنی نے مذکورہ تجاویز کا اعلان فرمایا جس کی تائید مولانا محمد علی جوہر، ڈاکٹر سیف الدین کچلو وغیرہ نے کی، جس کے نتیجہ میں حضرت مدنی وغیرہ کو گرفتار کرلیاگیا ۲۶/ ستمبر ۱۹۲۱/ کو کراچی عدالت میں حضرت مدنی نے پوری بے باکی اور شجاعت کے ساتھ طویل بیان دیا، اور مذکورہ امور کو دہرایا اور فرمایا کہ برطانوی حکومت کی فوج میں ملازمت حرام ہے اگر گورنمنٹ ہماری مذہبی آزادی سلب کرنے پر تیار ہے تو مسلمان اپنی جان تک قربان کردینے کو تیار ہوں گے او رمیں پہلا شخص ہوں گا جو اپنی جان قربان کروں گا اس بیان کے بعد رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر نے حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے قدم چوم لئے (چراغ محمد ص ۱۱۵)
جمعیة کے پلیٹ فارم سے اور جن اکابر علماء نے آزادی اور پھر ملک کی تعمیر و ترقی میں روشن خدمات انجام دیں ان میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی ، مولانا ابوالکلام آزاد، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا سجاد بہاری، مولانا سید سلیمان ندوی، علامہ انور شاہ کشمیری، مولانا شبیر احمد عثمانی، شاہ معین الدین اجمیری، مولانا عبدالحق مدنی، مولانا سید محمد میاں دیوبندی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا فخرالدین احمد مراد آبادی، مولانا احمد سعید دہلوی، وغیرہ کے نام شامل ہیں۔#
اس بزم جنوں کے دیوانے ہر راہ سے پہنچے یزداں تک
ہیں عام ہمارے افسانے دیوار چمن سے زنداں تک
ملک کی آزادی کے حوالے سے قربانیاں پیش کرنے والے مدارس اسلامیہ کے اکابر علمائے کرام کی خدمات کی ایک جھلک پیش کی گئی اور ”لذیذ بود حکایت دراز تر گفتیم“ کے تحت ذرا دراز نفسی کے ساتھ پیش کی گئی، حقیقت یہ ہے کہ علمائے کرام نے جہاد آزادی کے چمن کو اپنے خون جگر سے سینچا اور پروان چڑھایا ہے۔
جب پڑا وقت ، گلستاں کو خون ہم نے دیا
بہار آئی تو کہتے ہیں تیر ا کا م نہیں
کام کیا ہوتا، ارباب اقتدار اور فرقہ پرست عناصر کو تو ان کا نام تک لینا گوارا نہیں، لیکن یہ خود ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے ملک اور قوم کے ہیرو، ان مجاہدین کرام کو خراج عقیدت پیش کریں اور ان کی تاریخ اور کارناموں سے واقفیت حاصل کریں اور ان کے نقوش زندگی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں۔ کہ۔
یہ ہیں وہ سورما، وہ مجاہدہیں یہ، فیض سے جن کے یہ ملک آزاد ہے
انکو ہم بھول جائیں یہ زیبا نہیں، یہ وطن انکے احساس سے آباد ہے
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9، جلد: 90 ،شعبان1427 ہجری مطابق ستمبر2006ء
علماء کرام کی قربانیاں
از: مولانا شوکت علی قاسمی بستوی
استاذ تفسیر و ادب عربی دارالعلوم دیوبند، وناظم عمومی کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ
مدارس اسلامیہ ہند نے جہالت و ناخواندگی کے قلع قمع، علوم و فنون کی تعلیم و اشاعت اور ملت اسلامیہ کی دینی وملی قیات و رہنمائی کا فریضہ ہی انجام نہیں دیا ہے؛ بلکہ ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں بھی ان مدرسوں کی خدمات بڑی روشن ہیں، بالخصوص برطانوی سامراج کے ظلم و استبداد اور غلامی و محکومی سے نجات دلانے اور ابنائے وطن کو عروسِ حریت سے ہم کنار کرانے میں، مدارس اسلامیہ اور ان کے قائدین کی قربانیاں آب زر سے لکھی جانے کے قابل ہیں، وہ مدارس اسلامیہ کے جان باز علماء کرام ہی تو تھے جنھوں نے ملک میں آزادی کا صور اس وقت پھونکا جب عام طور پر دیگر لوگ خواب غفلت میں مست، آزادی کی ضرورت و اہمیت سے نابلد اور احساسِ غلامی سے بھی عاری تھے۔
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا
مگر یہ بھی بڑا قومی المیہ ہے کہ ۱۵/ اگست کے تاریخ ساز اور یادگار قومی دن کے مبارک و مسعود موقع پر جب مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے، ان کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، تو ان علماء کرام اور مجاہدین حریت کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے جنھوں نے ملک کی آزادی کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، مالٹا اور کالا پانی میں ہر طرح کی اذیتیں جھیلیں اور جان نثاری و سرفروشی کی ایسی مثال قائم کیں جن کی نظیر نہیں ملتی اور ملک کا چپہ چپہ ان کی قربانیوں کا چشم دید گواہ ہے۔
پتہ پتہ بو ٹا بو ٹا حا ل ہما ر ا جا نے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
ملک کا ایک طبقہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ دینی و اسلامی مدارس، قومی دھارے سے بالکل الگ تھلگ، ملکی و قومی مفادات سے بے پروا ہوکرصرف دینی تعلیم کی اشاعت میں لگے رہتے ہیں، مدراس کے فضلا گرد و پیش کے حالات سے بے خبر اور ملکی و قومی خدمت کے شعور واحساس سے بھی عاری ہوتے ہیں۔ لیکن مدارس اسلامیہ کا شاندار ماضی، اس مفروضہ کو قطعاً غلط اور بے بنیاد قرار دیتا ہے، اور تاریخ ہند کی پیشانی پر ثبت، مدارس اسلامیہ کی ملکی و قومی خدمات اور کارناموں کے نقوش پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ مدارس اسلامیہ کے علماء کرام و فضلاء عظام نے ہمیشہ ملکی مفادات کی پاسبانی اور اپنے خون پسینہ سے چمنستان ہند کی آب یاری کی ہے اور ملک کی آزادی کی تاریخ ان قربانیوں سے لالہ زار ہے، چنانچہ ان ہزاروں علماء کرام اور مجاہدین آزادی کی ایک لمبی فہرست ہے جنھوں نے آزادی کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں اور قائدانہ رول ادا کیا ، خصوصاً حضرت مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی، مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی، مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی، مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی، مولانا سید احمد شہید رائے بریلوی، مولانا سید اسماعیل شہید دہلوی، مولانا شاہ اسحاق دہلوی، مولانا عبدالحئی بڈھانوی، مولانا ولایت علی عظیم آبادی، مولانا جعفر تھانیسری، مولانا عبداللہ صادق پوری، مولانا نذیر حسین دہلوی، مفتی صدرالدین آزردہ، مفتی عنایت احمد کاکوری،مولانا فرید الدین شہید دہلوی، سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، امام حریت مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، قاضی عنایت احمد تھانوی، قاضی عبدالرحیم تھانوی، حافظ ضامن شہید، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا احمد اللہ مدراسی، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا رضی اللہ بدایونی، امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد، امام انقلاب شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری،مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، مولانا شوکت علی رام پوری، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا ڈاکٹر برکت اللہ بھوپالی، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا کفایت اللہ دہلوی، مولانا سیف الرحمن کابلی، مولانا وحید احمد فیض آبادی، مولانا محمد میاں انصاری، مولانا عزیر گل پشاوری، مولانا حکیم نصرت حسین فتح پوری، مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا ابوالمحاسن سجاد پٹنوی، مولانا احمد سعید دہلوی، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا محمد میاں دہلوی، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا عبدالحلیم صدیقی، مولانا نورالدین بہاری وغیرہ آسمان حریت کے وہ تابندہ ستارے ہیں جنھوں نے محکومی کی شب دیجور کو تار تار کیا اور ملک کے چپے چپے کو انوار حریت کی ضوفشانی سے معمور کردیا۔
یہ ہند میں سرمایہٴ ملت کے نگہباں
اللہ نے بر وقت کیا ان کو خبردار
مذکورہ مجاہدین وعلماء کرام سب مدارس اسلامیہ ہی کے فضلا و فیض یافتہ تھے ایک دو حضرات ایسے ہیں جو باضابطہ کسی مدرسے کے فارغ نہ تھے لیکن علماء کرام کے باضابطہ صحبت یافتہ ضرور تھے، ان میں وہ علماء کرام بھی ہیں جنھوں نے جدوجہد آزادی کا آغاز کیا اور حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب اور پھر سید احمد شہید کی زیر قیادت کام کرتے رہے اور ان کے بعد بھی جدوجہد جاری رکھی، وہ علماء کرام ہی ہیں جنھوں نے ۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی میں بنفس نفیس شرکت فرمائی پھر وہ علماء کرام ہیں جو زعیم حریت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اور امام الہند مولانا ابوالکلام کی زیر قیادت جنگ آزادی میں شریک رہے۔ ان حضرات کی قربانیوں کی ایک جھلک پیش کرنے کے لئے ہمیں سلسلہ وار واقعات پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔
سولہویں صدی عیسوی کے ختم ہوتے ہوتے انگلستانی سوداگر ہندوستان پہنچ چکے تھے ۱۶۰۱/ میں ملکہ ایلزبیتھ کی اجازت سے ایک سو تاجروں نے تیس ہزار پونڈ کی خطیر رقم لگاکر ایک تجارتی ادارہ ایسٹ انڈیا کمپنی (East India Company) کے نام سے قائم کیا، مغربی بنگال کو کمپنی نے اپنا مرکز بنایا اور ڈیڑھ سو سال تک اپنی تمام تر توجہ صرف تجارت پر مرکوز رکھی لیکن جب حضرت اورنگ زیب عالمگیر، اور معظم شاہ کے بعد مغلیہ حکومت کی بنیادیں کمزور پڑگئیں اور ملک میں انارکی اور طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا مکھوٹا اتار پھینکا اور نظام حکومت میں مداخلت شروع کردی۔ ۱۷۵۷/ میں پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ کے خلاف انگریزوں کی فوجیں کھلم کھلا میدان میں آگئیں اور ننگ ملت ننگ دین اور ننگ وطن میر جعفر کی غداری کے سبب نواب سراج الدولہ کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا اور پورے بنگال پر ا نگریز قابض ہوگئے، پھر ۱۷۶۴/ میں انگریزوں کے خلاف نواب شجاع الدولہ کو بکسر میں شکست ہوئی اور بہار و بنگال انگریز کی دیوانی میں چلے گئے۔ ۱۷۹۲/ میں بطل حریت سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد انگریزوں نے میسور پر قبضہ کرلیا۔ ۱۸۴۹ میں پنجاب بھی کمپنی کے قبضہ میں آگیا اسی طرح سندھ آسام، برما، اودھ، روہیل کھنڈ، جنوبی دوآبہ، علی گڈھ، شمالی دوآبہ، مدراس وپانڈی چری وغیرہ انگریزوں کے زیر تسلط آگئے اور پھر وہ وقت بھی آپہنچا جب دہلی پر بھی کمپنی کی حکومت قائم ہوگئی اور مغل بادشاہ کا صرف نام رہ گیا، ان علاقوں پر انگریزوں نے فتح حاصل کرنے کے لیے کیا کیا تدبیریں کیں مسز اینی بیسنٹ کی زبانی سنئے:
”کمپنی والوں کی جنگ سپاہیوں کی جنگ نہ تھی بلکہ تاجروں کی جنگ تھی، ہندوستان کو انگلستان نے اپنی تلوار سے فتح نہ کیا بلکہ خود ہندوستانیوں کی تلوار سے اور رشوت و سازش، نفاق، اور حد درجہ کی دورخی پالیسی پہ عمل کرکے ایک جماعت کو دوسری جماعت سے لڑاکر اس نے یہ ملک حاصل کیا۔ (ہندوستان کی کوشش آزادی کے لئے ص:۵۶)
ملک میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے پھیلتے ہوئے جال اور بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو سب سے پہلے اگر کسی نے محسوس کیا تو وہ حضرت مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی کی عبقری شخصیت تھی آپ نے پوری دوراندیشی کے ساتھ اصلاح کے اصول بیان کئے طریقہٴ کار کی نشاندہی فرمائی اور باشندگان وطن کے بنیادی حقوق پامال کرنے والے نظام حکومت کو درہم برہم کردینے کی تلقین کی اور اس کے لیے طاقت کے استعمال پر بھی زور دیا، ان کے متعین کردہ نقشہ راہ کے مطابق ان کے فرزنداکبر حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد کا منظم آغاز کیا، انگریزوں کے خلاف تاریخ ساز فتویٰ صادر فرمایا اور ملک کے دارالحرب ہونے کا اعلان کیا جو انگریز کے خلاف اعلان جہاد کے مترادف تھا یہ فتویٰ جنگل کی آگ کی طرح ملک کے کونے کونے میں پہنچ گیا، ۱۸۱۸/ میں عوام کی ذہن سازی کے لئے مولانا سید احمد شہید، مولانا اسماعیل دہلوی، اور مولانا عبدالحئی بڈھانوی کی مشاورت میں ایک جماعت تشکیل دی گئی جس نے ملک کے اطراف میں پہنچ کر دینی اور سیاسی بیداری پیدا کی، پھر انگریزوں سے جہاد کے لئے ۱۸۲۰/ میں مولانا سید احمد شہید رائے بریلوی کی قیادت میں مجاہدین کو روانہ کیاگیا، انھوں نے جنگی خصوصیات کی بنا پر جہاد کا مرکز صوبہ سرحد کو بنایا، مقصد انگریزوں سے جہاد تھا لیکن پنجاب کے راجہ انگریزوں کے وفادار تھے، اس جہاد کے مخالف تھے اور اس کو ناکام کرنے کی تدبیریں کررہے تھے اس لئے پہلے حضرت سید احمد شہید نے ان کو پیغام بھیجا کہ ”تم ہمارا ساتھ دو، دشمنوں (انگریزوں) کے خلاف جنگ کرکے ہم ملک تمہارے حوالے کردیں گے، ہم ملک ومال کے طالب نہیں“ لیکن راجہ نے انگریز کی وفاداری ترک نہ کی تو اس سے بھی جہاد کیاگیا ۱۸۳۱/ میں بالاکوٹ کے میدان میں حضرت مولانا رائے بریلوی نے جام شہادت نوش کیا، مگر ان کے متوسلین نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ملک کے مختلف اطراف میں انگریز کے خلاف گوریلا جنگ جاری رکھی۔ ۱۸۵۷/ کی جنگ کے لیے سید صاحب کے متوسلین ومجاہدین نے فضا ہموار کرنے اور افراد تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی میں علماء کرام نے باقاعدہ جنگ میں حصہ لیا، یہ علماء کرام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور حضرت سید احمد شہید رحمہم اللہ کی سلسلة الذہب (طلائی زنجیر) کی سنہری کڑی تھے۔ اس جنگ کے لیے علماء کرام نے عوام کو جہاد کی ترغیب دلانے کے لئے ملک کے طول و عرض میں وعظ و تقریر کا بازار گرم کردیا اور جہاد پر ابھارنے کا فریضہ انجام دیا نیز ایک متفقہ فتویٰ جاری کرکے انگریزوں سے جہاد کو فرض عین قرار دیا۔ اس فتویٰ نے جلتے پر تیل کا کام کیا اور پورے ملک میں آزادی کی آگ بھڑک اٹھی، اکابر علماء دیوبند نے شاملی کے میدان میں جہاد میں خود شرکت کی۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور حافظ ضامن شہید نے حضرت سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی، پھر تیاری شروع کردی گئی، حضرت حاجی صاحب کو امام مقرر کیاگیا مولانا منیر نانوتوی کو فوج کے دائیں بازو کا اور حافظ ضامن تھانوی کو بائیں بازو کا افسر مقرر کیاگیا مجاہدین نے پہلا حملہ شیرعلی کی سڑک پر انگریزی فوج پر کیا اور مال و اسباب لوٹ لیا، دوسرا حملہ ۱۴/ ستمبر ۱۸۵۷/ کو شاملی پر کیا، اور فتح حاصل کی، جب خبر آئی کہ توب خانہ سہارنپور سے شاملی کو بھیجا گیا ہے تو حضرت حاجی صاحب نے مولانا گنگوہی کو چالیس پچاس مجاہدین کے ساتھ مقرر کیا، سڑک باغ کے کنارے سے گزرتی تھی، مجاہدین اس باغ میں چھپے تھے جب پلٹن وہاں سے گذری تو مجاہدین نے ایک ساتھ فائر کردیا پلٹن گھبراگئی اور توپ خانہ چھوڑ کر بھاگ گئی اسی معرکہ میں حافظ ضامن صاحب تھانوی شہید ہوئے سید حسن عسکری صاحب کو سہارنپور لاکر انگریزوں نے گولی ماردی مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی مظفرنگر جیل میں ڈال دئیے گئے اور مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کے لئے انڈرگراؤنڈ چلے گئے۔
۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی مختلف وجوہ و اسباب کی بنا پر ناکام رہی اور آزادی کے متوالوں پر ہول ناک مظالم کے پہاڑ توڑڈالے گئے۔ ان میں مسلمان اور بطور خاص علماء، انگریزوں کی مشق ستم کا نشانہ بنے، اس لئے کہ انھوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور علماء کرام نے ان کے خلاف فتویٰ دے کر جہاد کا اعلان عام کردیا تھا، چنانچہ ۱۸۵۷/ سے چودہ برس پہلے ہی گورنر جنرل ہند نے یہ کہہ دیا تھا کہ مسلمان بنیادی طور پر ہمارے مخالف ہیں اس جنگ میں دو لاکھ مسلمانوں کو شہید کیاگیا جن میں ساڑھے اکیاون ہزار علماء کرام تھے، انگریز علماء کے اتنے دشمن تھے کہ ڈاڑھی اور لمبے کرتے والوں کو دیکھتے ہی پھانسیاں دے دیتے تھے، ایڈورڈ ٹامسن نے شہادت دی ہے کہ صرف دہلی میں پانچ سو علماء کو پھانسی دی گئی (ریشمی رومال ص:۴۵) پوری دہلی کو مقتل میں تبدیل کردیاگیا تھا مرزا غالب کی زبان میں۔
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر نمونہ بنا ہے زند ا ں کا
شہر دلی کا ذَ رّہ ذ رّہٴ خا ک
تشنہٴ خوں ہے ہر مسلمان کا
دہلی، کلکتہ، لاہور، بمبئی، پٹنہ، انبالہ، الہ آباد، لکھنوٴ، سہارنپور، شاملی اور ملک کے چپے چپے میں مسلمان اور دیگر مظلوم ہندوستانیوں کی لاشیں نظر آرہی تھیں علماء کرام کو زندہ خنزیر کی کھالوں میں سی دیا جاتا پھر نذر آتش کردیا جاتا تھا کبھی ان کے بدن پر خنزیر کی چربی مل دی جاتی پھر زندہ جلادیا جاتا تھا۔ (دیکھئے ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماء)
اس جنگ میں ناکامی کی بنیادی وجہ افراد ووسائل کی قلت اور تنظیم کی کمی تھی اس لئے اکابر دیوبند نے غور و خوض کے بعد، دیوبند میں ۱۸۶۶/ میں دار العلوم دیوبند قائم کیا، اس کا مقصد جہاں تعلیم وتعلم تھا وہیں ملک کی آزادی کے لئے افراد و رجال کار کی تیاری بھی تھی جو قوم اور ملک کی قیادت کرسکیں کاروان آزادی کو کامیابی کے ساتھ منزل تک پہنچاسکیں چنانچہ دارالعلوم کے پہلے طالب علم جو فراغت کے بعد دارالعلوم میں استاذ اور صدرالمدرسین کے منصب جلیل پر فائز ہوئے انھوں نے ایک موقع پر فرمایا:
”حضرت الاستاذ (حضرت نانوتوی) نے اس مدرسے کو کیا درس تدریس، تعلیم وتعلّم کیلئے قائم کیاتھا؟ مدرسہ میرے سامنے قائم ہوا جہاں تک میں جانتا ہوں ۱۸۵۷/ کے ہنگامہ کی ناکامی کے بعد یہ ارادہ قائم کیاگیا تاکہ کوئی ایسا مرکز قائم کیا جائے جس کے زیر اثر لوگوں کو تیار کیا جائے تاکہ ۱۸۵۷/ کی تلافی کی جاسکے“ (رسالہ دارالعلوم شمارہ جمادی الثانی ۱۳۷۲ھ)
معلوم ہوا کہ ملک کی خدمت اور اس کی آزادی سے ہم کنار کرنے کا جذبہ دارالعلوم دیوبند کے قیام کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے، اسی طرح جو مدارس دارالعلوم کے نہج پر بعد میں قائم کئے گئے ان کے قیام کے مقاصد میں بھی ایک اہم مقصد یہ رہا ہے کہ ایسے رجال کار اور افراد تیار کئے جائیں جو ملک کی تعمیر و ترقی میں موٴثر رول ادا کرسکیں، پھر ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے وسیع پیمانے پر جدوجہد کیلئے اکابر دارالعلوم دیوبند نے جمعیة علماء ہند قائم کی جو دارالعلوم کا سیاسی بازو تھی، اکابر جمعیة نے عوام میں بیداری کی لہر پیدا کرنے اور آزادی کے لیے فضا سازگار بنانے میں اہم رول ادا کیا جمعیة نے کانگریس سے بھی پہلے ”کوئٹ انڈیا“ ”ہندوستان چھوڑو“ کا مطالبہ اپنی تجویز کے ذریعہ کیا، مولانا ابوالکلام آزاد نے جمعیة اور کانگریس کے پلیٹ فارم سے، اور مولانا محمد علی جوہر اور مولانا حسرت موہانی وغیرہ نے آزادی کے لئے جو خدمات انجام دیں وہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
یہاں امام انقلاب حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی نے اپنے رفقاء کار کے ساتھ مل کر جو آزادی کی تحریک برپا کی تھی، اس پر روشنی ڈالنا مناسب ہوگا یہ تحریک ریشمی رومال کے نام سے مشہور ہوئی ۱۸۵۷/ کی جنگ کی ناکامی کے بعد ملک کی آزادی کے لئے یہ ہمہ گیر تحریک شروع کی گئی تھی، پہلے حضرت شیخ الہند نے فضلاء دیوبند کی ایک تنظیم ثمرة التربیہ قائم کی پھر جمعیة الانصار قائم کی اور اس کے تحت فضلاء کو مربوط کیا اور ان کو منظم اور ٹرینڈ کیا گیا، فضلاء میں کابل اور سرحد کے فضلاء بھی تھے، حضرت سید احمد شہید کی تحریک کے اثرات وہاں باقی تھے حضرت شیخ الہند نے اسی علاقہ کو اپنی تحریک کا مرکز بنایا، پروگرام یہ تھا کہ اس علاقے کو جوش جہاد سے معمور کردیا جائے اور حکومت افغانستان کو آمادہ کیا جائے کہ وہ مجاہدین آزادی ہند کا تعاون کرے اور ٹرکی حکومت سے رابطہ کرکے اسے تیار کیا جائے کہ وہ ہندوستان میں برطانوی حکومت پر حملہ کردے۔ اور اندرون ملک بغاوت و انقلاب کی آگ بھڑکادی جائے اور اندرونی اور بیرونی یورش سے مجبور ہوکر برطانیہ ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوجائے۔ اس کے لئے حضرت شیخ الہند نے اندرون ملک دہلی، لاہور، پانی پت، دین پور، امروت، کراچی، اتمان زئی، ڈھاکہ وغیرہ کو مرکز بنایا، مشن کی کامیابی کے لئے برما، چین، فرانس اور امریکہ وفود روانہ کئے اور ان کی حمایت حاصل کی۔ مولانا عبید اللہ سندھی کو آپ نے کابل میں رہ کر خدمات انجام دینے کا حکم دیا اور خود حجاز مقدس تشریف لے گئے تاکہ وہاں خلافت عثمانیہ کے ذمہ داروں سے مل کر ذہن سازی کی جائے اور ترکی کو برطانوی حکومت کے خلاف حملہ کیلئے راغب کیا جائے چنانچہ حضرت نے گورنر غالب پاشا سے ملاقات کی اس نے مکمل تعاون کیا اور وزیر جنگ ترکی، انور پاشا سے بھی مدینہ منورہ میں حضرت شیخ الہند کی ملاقات ہوئی اور وزیر جنگ ترکی نے اپنے ہرتعاون کا یقین دلایا۔ اس تحریک میں مولانا سندھی نے ایک ریشمی رومال پر ایک خفیہ خط بنوایا تھا اس لئے اس کا نام ریشمی رومال تحریک پڑگیا۔ اس تحریک کے ارکان و معاونین میں حضرت شیخ الہند کے علاوہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، موانا عبید اللہ سندھی، حاجی ترنگ زئی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالرحیم رائے پوری، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، مولانا صادق کراچوی، خان عبدالغفار خاں سرحدی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا حسرت موہانی، موانا محمد علی جوہر، مولانا عزیر گل، مولانا برکت اللہ بھوپالی، اور غیرمسلم ارکان تحریک میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ، ڈاکٹر متھرا سنگھ، اے پی پی اچاریہ وغیرہ شامل تھے ۔ تحریک کا راز فاش ہوجانے اور حضرت شیخ الہند کے گرفتار ہوجانے کے باعث تحریک کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہوتے رہ گئی لیکن تحریک سے ہندومسلم اتحاد کے ساتھ آزادی کی لڑائی لڑنے کی مضبوط بنیاد قائم ہوگئی۔ حضرت شیخ الہند کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے گاندھی جی کا خلافت کمیٹی اور جمعیة علماء ہند کے پلیٹ فارم اور فنڈ سے پورے ملک کا دورہ کرایا اور ایک ساتھ مل کر جنگ آزادی میں حصہ لینے کا فیصلہ کیاگیا۔
اس موقع پر شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کو سلام عقیدت پیش کرنا بھی ضرری ہے، انھوں نے ساری زندگی حضرت شیخ الہند کے نقش قدم پر چل کر ملک کی آزادی اور تعمیر و ترقی میں صرف کردی اور جمعیة اور کانگریس کے پلیٹ فارم سے جو کارنامے انجام دئیے وہ آب زر سے لکھے جائیں گے، ۱۹۲۰/ میں جمعیة علماء ہند کے اجلاس عام میں یہ طے کیاگیا کہ گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ موالات و نصرت کے تمام تعلقات اور معاملات حرام ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ (۱) حظابات اور اعزازی عہدے چھوڑدئیے جائیں (۲) کونسلوں کی ممبری ترک کردی جائے (۳) دشمنان دین انگریز کو تجارتی نفع نہ پہنچایا جائے (۴) اسکولوں اور کالجوں میں سرکاری امداد قبول نہ کی جائے (۵) دشمنان دین کی فوج میں ملازمت کو حرام سمجھا جائے (۶) سرکاری عدالتوں میں مقدمات نہ لے جائے جائیں ۱۹۲۱/ جولائی میں کراچی میں تحریک خلافت کے اجلاس میں بھی حضرت مدنی نے مذکورہ تجاویز کا اعلان فرمایا جس کی تائید مولانا محمد علی جوہر، ڈاکٹر سیف الدین کچلو وغیرہ نے کی، جس کے نتیجہ میں حضرت مدنی وغیرہ کو گرفتار کرلیاگیا ۲۶/ ستمبر ۱۹۲۱/ کو کراچی عدالت میں حضرت مدنی نے پوری بے باکی اور شجاعت کے ساتھ طویل بیان دیا، اور مذکورہ امور کو دہرایا اور فرمایا کہ برطانوی حکومت کی فوج میں ملازمت حرام ہے اگر گورنمنٹ ہماری مذہبی آزادی سلب کرنے پر تیار ہے تو مسلمان اپنی جان تک قربان کردینے کو تیار ہوں گے او رمیں پہلا شخص ہوں گا جو اپنی جان قربان کروں گا اس بیان کے بعد رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر نے حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے قدم چوم لئے (چراغ محمد ص ۱۱۵)
جمعیة کے پلیٹ فارم سے اور جن اکابر علماء نے آزادی اور پھر ملک کی تعمیر و ترقی میں روشن خدمات انجام دیں ان میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی ، مولانا ابوالکلام آزاد، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا سجاد بہاری، مولانا سید سلیمان ندوی، علامہ انور شاہ کشمیری، مولانا شبیر احمد عثمانی، شاہ معین الدین اجمیری، مولانا عبدالحق مدنی، مولانا سید محمد میاں دیوبندی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا فخرالدین احمد مراد آبادی، مولانا احمد سعید دہلوی، وغیرہ کے نام شامل ہیں۔#
اس بزم جنوں کے دیوانے ہر راہ سے پہنچے یزداں تک
ہیں عام ہمارے افسانے دیوار چمن سے زنداں تک
ملک کی آزادی کے حوالے سے قربانیاں پیش کرنے والے مدارس اسلامیہ کے اکابر علمائے کرام کی خدمات کی ایک جھلک پیش کی گئی اور ”لذیذ بود حکایت دراز تر گفتیم“ کے تحت ذرا دراز نفسی کے ساتھ پیش کی گئی، حقیقت یہ ہے کہ علمائے کرام نے جہاد آزادی کے چمن کو اپنے خون جگر سے سینچا اور پروان چڑھایا ہے۔
جب پڑا وقت ، گلستاں کو خون ہم نے دیا
بہار آئی تو کہتے ہیں تیر ا کا م نہیں
کام کیا ہوتا، ارباب اقتدار اور فرقہ پرست عناصر کو تو ان کا نام تک لینا گوارا نہیں، لیکن یہ خود ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے ملک اور قوم کے ہیرو، ان مجاہدین کرام کو خراج عقیدت پیش کریں اور ان کی تاریخ اور کارناموں سے واقفیت حاصل کریں اور ان کے نقوش زندگی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں۔ کہ۔
یہ ہیں وہ سورما، وہ مجاہدہیں یہ، فیض سے جن کے یہ ملک آزاد ہے
انکو ہم بھول جائیں یہ زیبا نہیں، یہ وطن انکے احساس سے آباد ہے
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9، جلد: 90 ،شعبان1427 ہجری مطابق ستمبر2006ء
Comments
Post a Comment