آہ ماسٹر اقبال صاحب سنجری

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

صبح 9 بجے اس افسوس ناک خبر نے غم زدہ کر دیا کہ استاذ محترم جناب ماسٹر اقبال صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے.
انا للہ و انا الیہ راجعون

ماسٹر صاحب گرچہ کافی عمر دراز تھے مگر صحت قابل رشک تھی، دو سال پہلے ان سے سنجر پور چوراہے پر ملاقات ہوئی تو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ماسٹر صاحب بہت چاق و چوبند اور ھشاش بشاش تھے. میں نے عمدہ صحت پر مبارکباد دی تو اپنے مخصوص لہجے میں گویا ہوے
ہم لوگ تم لوگوں کی طرح زیستن براے خوردن کے فارمولے کے بجاے خوردن براے زیستن پر عمل پیرا ہیں اس لیے بہت سے عوارض سے محفوظ ہیں؛
ماسٹر صاحب واقعی قابل رشک صحت کے مالک تھے مگر موت اس کا تو وقت متعین ہے، یہ تو اپنی آمد کا  کوئی بہانہ ڈھونڈھ ہی لیتی ہے.



ماسٹر صاحب سے مجھے زیادہ استفادے کا موقع نہیں مل سکا تھا، عربی دوم اور سوم میں چند ماہ انھوں نے ہم کو انگلش پڑھایی  مگر اسی دوران وہ شبلی نیشنل کالج میں لیکچرر ہو کر چلے گئے.
ماسٹر صاحب کا جاہ و جلال اور رعب و دبدبہ قابل دید ہوتا تھا، آواز بھی بڑی تیز اور دم دار تھی، وہ سینکڑوں میٹر دور سے ایک تیز آواز دیتے اور پورے کیمپس پر ایک سکوت طاری ہو جاتا، شریر سے شریر طالبعلم بھی ماسٹر صاحب سے آنکھ ملا کر گفتگو کی ہمت نہ کرپاتا تھا.
چند سال پہلے ایک دفعہ مدرسے پر اچانک ان سے ملاقات ہو ئی گرچہ میں اس وقت خود کئی ذمہ داریوں پر فائز تھا مگر ماسٹر صاحب کے سامنے میں نے اپنی حالت بیس سال پہلے والے ایک طالبعلم کی محسوس کی. ماسٹر صاحب کو دیکھ کر مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی. میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اساتذہ میں اتنی بارعب شخصیت کوئی دوسری نہ تھی

ان کی زندگی بہت منضبط اور اصولی تھی وہ مدرسے پر کئی اہم عہدوں پر فائز رہے، شخصیت عموما تنازعات سے پاک رہی، ہر شخص ان کی نیکی، طہارت، اصول پسندی، ایمانداری اور تقوی کا مداح تھا.
ان کی موت سے مدرسہ ایک متحرک اور بے لوث خادم سے محروم ہو گیا.
اللہ اس قحط الرجال میں مدرسے کو ان کا بدل دے. ماسٹر مرحوم صاحب کی خطاؤں سے درگزر کرے اور اپنی بے پایاں رحمتوں سے ڈھانپ لے. آمین.



جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقاے دوام لا ساقی




اختر سلطان اصلاحی

1 اپریل 2017

Comments